بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سورہ الانبیاء کی آیات 11 سے 24 تک کا مجموعہ دشمنان حق سے نمٹنے میں خدا کی غیر متغیر سنت اور ایک واضح تنبیہ بیان کرتا ہے؛ ان لوگوں نے جو انبیاء کے مد مقابل آ کھڑے ہوئے، انکار کیا، سرکشی کی اور واضح دلائل سے منہ موڑ لیا۔ یہ آیات محض تاریخی بیانات نہیں بلکہ ان قوموں کے انجام کی خاکہ کشی کرتی ہیں جنہوں نے ظلم کا راستہ چنا اور یہ ہر عصر و دہر کی انسانیت کے لئے والی تنبیہ ہیں۔
اس حصے میں سورہ انبیاء تین اہم باتوں پر زور دیتی ہے: "ظالم قوموں کی تباہی"، "حسرت اور پچھتاوا مگر دیر سے"، اور اس بات پر اصرار کہ "خدا کے ارادے کے بغیر کوئی طاقت بھی سرکشوں کو گرنے نہیں بچا سکتی۔" ایسے زمانے میں جب کہ ظلم اور زیادتی نے نئے اور پیچیدہ روپ اختیار کر لئے ہیں، یہ آیات ایک بنیادی حقیقت کو عیاں و بیان کرتی ہیں اور وہ یہ کہ "ہر وہ تہذیب جو ظلم پر قائم کی جائے گی، اندر ہی اندر سے شکست و ریخت سے دوچار ہوگی، اور اللہ انسانوں کے اعمال پر نظر رکھنے سے ذرا بھی غافل نہیں ہے۔"
ظالم بستیوں کی تباہی
آیت 11 کچھ بستیوں کی بربادی اور ان کی جگہ دوسری قوموں کی آمد کا ذکر کرکے اللہ کے قانون کا کلی اور حتمی حکم بیان کرتی ہے۔ مقصد صرف ایک خاص شہر یا قوم، نہیں ہے؛ یہ آیت تہذیبوں کے سقوط و زوال کا ایک عام نمونہ ہے۔ قرآن واضح کرتا ہے کہ 'تباہی و بربادی' 'ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے' آتی ہے۔ یعنی خدا کا عذاب بلا وجہ نہیں اترتا بلکہ 'فساد و برائی'، 'انکارِ حق' اور 'پیغمبروں کو ایذا رسانی' کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تاریخ ایسی بربادیوں کی گواہ رہی ہے اور یہ آیت بتاتی ہے کہ یہ قانون بدلا نہیں ہے۔
سزا سے بھاگنے کی لاحاصل کوشش
آیات 12 اور 13 عذاب کے اترنے کے لمحے کا دل دہلا دینے والا منظر پیش کرتی ہیں؛ جب مجرم عذاب کی علامتیں دیکھ کر بھاگنے لگتے ہیں۔ لیکن قرآن زور دار لہجے میں فرماتا ہے کہ یہ بھاگنا بالکل بے سود اور لاحاصل ہے۔ وہی آسائش اور طاقت جس پر انہوں نے بھروسہ کیا تھا اور جو ان کی سرکشی کا سہارا بنتی تھی، اب بے کار ہو چکا ہے۔ یہ پیعام بالکل واضح ہے: "انسان کے پاس جب ہدایت کا موقع تھا، اس نے اسے کھو دیا؛ اب احتساب کی گھڑی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔"
ظلم کا اعتراف مگر تاخیر سے
آیات 14 اور 15 کی رو سے، مجرمین عذاب واقع ہونے کے بعد، اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن یہ اعتراف انہیں بچانے کے لیے کافی نہیں ہے، کیونکہ عمل میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ چنانچہ تباہی کے بعد پچھتاوا اور افسوس، محض ان لوگوں کی شکست کی کہانی ہے جنہوں نے پیغمبروں کی آیات و انتباہات کو سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ یہ آیات بتاتی ہیں کہ سچائی کے دشمن ہمیشہ اس مقام پر پہنچتے ہیں جہاں وہ اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہیں؛ لیکن بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ضعف خدایان دروغین و استدلال علیه شرک
آیات 16 سے 18 معاشروں کے زوال کی جڑوں پر گہری نظر ڈالتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "تخلیق بے مقصد نہیں ہے اور کسی امت کو، نعمتوں اور عقل سے فیضیاب ہونے کے بعد، یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کھیل کود اور غفلت کا راستہ چنے۔ سرکش لوگ عام طور پر زندگی کو کھیل سمجھتے ہیں، عدل و انصاف کو لذتوں پر قربان کر دیتے ہیں اور حق کو بگاڑ دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ باطل اگرچہ بہت شور مچاتا ہے، لیکن اس کا انجام شکست و ریخت ہے۔ کیونکہ حقیقت اپنی طاقت سے اس پر وہر کرتی ہے۔ یہ بیان ظالم قوموں کے زوال کے فلسفے کو بیان کرتی ہے: "تباہی، حق سے دور ہونے کا فطری نتیجہ ہے، نہ کہ کوئی ناگہانی فیصلہ۔"
جعلی معبودوں کی کمزوری اور شرک کے خلاف استدلال
آیات 21 سے 24 حق سے دشمنی کی ایک اور قسم کی طرف اشارہ کرتی ہیں: "جھوٹے معبود بنا لینا"۔ قرآن واضح دلیل کے ساتھ فرماتا ہے کہ "اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو کائنات میں انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جاتی۔ لہٰذا شرک نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ عقلی طور پر ناممکن ہے۔"
جن لوگوں نے ایسے عقیدوں کا سہارا لیا ہے، انہوں نے درحقیقت اپنی فکری عمارت کھوکھلی بنیادوں پر کھڑی کی ہے؛ ظاہر ہے کہ ایسی تہذیب حق کے سامنے نہیں ٹہر سکتی۔ آیت 23 یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ "اللہ سے کوئی بازپرس نہیں کر سکتا کیونکہ وہی تخلیق اور انصاف کا سرچشمہ ہے؛ یہ انسان ہیں جنہیں اپنے اعمال کا جواب دینا پڑے گا۔"

دشمنوں کے مقابلے میں خدا کا قانون مضبوط ہے
یہ آیات سرکش قوموں کے زوال کے چکر کی مکمل تصویر کشی کرتی ہیں: "خوشحال و آسائش، غرور، پیغمبروں کا انکار، ظلم، غفلت اور بعدازاں عذاب اور پچھتاوا۔" بنیادی پیغام یہ ہے کہ ہر وہ تہذیب جو حق کی دشمن بنے گی، حتمی طور تباہ ہو جائے گی؛ اور یہ تباہی کسی بیرونی واقعے کی وجہ سے نہیں ہوگی، بلکہ اندرونی فساد، برائی، بدعنوانی اور حق کے خلاف جنگ کی وجہ سے۔"
آج کی دنیا میں بھی اللہ کے اس قانون کی بہت سی مثالیں نظر آتی ہیں۔ "وہ طاقتیں جو ظلم، دوسری قوموں کی توہین، جنگ پھیلانے، اجارہ داری اور جھوٹ پر بنی ہیں، دیر یا سویر اپنے اعمال کے نتائج بھگتیں گی۔" یہ آیات یاد دلاتی ہیں کہ "حقیقی طاقت ہتھیاروں اور دولت میں نہیں بلکہ انصاف اور سچائی میں ہے؛ جہاں حق کو دبایا جاتا ہے، وہاں باطل عارضی طور پر آگے بڑھ جاتا ہے؛ لیکن اس کا حتمی انجام زوال اور بربادی ہی ہے۔"
قرآن کریم کے صفحہ 323 پر مذکورہ آیات کی تلاوت سنیے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مہدی احمدی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ